امام شافعی کادیوان امام شافعی کا فقہ علوم دینیہ میں جو مقام ہے وہ محتاج تعارف نہیں۔ائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں اوردنیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان کے اجتہاد ات پر عمل کرتی ہے۔ فقہ میں ان کی عظمت اورمجتہدانہ شان اتنی بلند وبالاہے کہ آدمی سراٹھاکردیکھے تواس کے سر سے عمامہ اورٹوپی گرجائے۔آج کی محفل میں بات امام شافعی کے علوم دینیہ میں مہارت پر نہیں بلکہ ادب میں ان کے رسوخ کامل اوراتقان ومہارت پر ہے۔ امام شافعی علوم دینیہ کے ساتھ ادب اورعربی زبان ولغت پر بھی مہارت تامہ بلکہ مجتہدانہ شان رکھتے تھے اورادب ولغت میں بھی وہ امام کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ عربی زبان وادب کی بطورخاص تعلیم حاصل کی تھی بلکہ اس کے لئے مختلف قبائل کی خاک چھانی تھی اوراپنی عمرعزیزکے قیمتی دن عربی زبان وادب اورشعروغیرہ کی تحصیل میں صرف کئے۔ چنانچہ امام شافعی خود فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ سے نکلنے کے بعد قبیلہ ہذیل کی مصاحبت اختیار کی۔میں ان سے زبان وادب سیکھتاتھا۔کیونکہ وہ تمام عرب میں سب سے زیادہ فصیح ہیں۔میں ان کے درمیان سترہ سال رہا۔جہاں وہ جاتے وہاں میں بھی جاتا جہاں رہتے وہاں میں بھی رہتے۔چنانچہ جب میں دوبارہ مکہ واپس آیاتو اشعار ،آداب ،اخبار اورایام عرب میں مہارت بہم پہنچاچکاتھا۔اس بات کا اعتراف مشہور ائمہ لغت نے بھی کیاہے اوربعض ائمہ لغت نے توان کی شاگردی بھی اختیار کی ہے۔مشہور امام لغت اصمعی نے توان کی باقاعدہ شاگردی کی ہے اورقبیلہ ہذیل کے اشعار اورشنفری کے اشعار کی روایت ،شرح،اوراس کے غریب الفاظ کی واقفیت امام شافعی سے ہی حاصل کی ہے۔چنانچہ امام بیہقی امام شافعی کی سیرت پر لکھی کتاب میں اصمعی کابیان نقل کرتے ہیں 'مین نے قبیلہ ہذیل کے اشعارکی تصحیح قریش کے ایک نوجوان سے کی جس کو محمد بن ادریس الشافعی کہاجاتاہے'۔ معتزلی امام لغت جاحظ بھی امام شافعی کے لغت اورزبان عربی میں رسوخ کا معترف بلکہ متاثر تھا۔ایک مرتبہ اس نے اس کا برملااظہار بھی کرتے ہوئے کہانظرت فی کتب ھولاء النبغة الذین نبغوافی العلم ،فلم ار احسن تالیفاًمن المطلبی (الشافعی)کان کلامہ ینظم دراالی درمیں نے اہل علم میں سے جوفائق اوریکتائے روزگار ہوئے ان میں سے کسی کی تالیف مطلبی (امام شافعی) سے اچھی نہیں دیکھی اسکی بات ایسی ہوتی ہے گویاموتی پرورہے ہیں۔ائمہ نحو ولغت میں سے ایک امام مبردامام شافعی کو اشعرالناس کہاکرتے تھے۔عبدالملک بن ہشام نحوی امام شافعی سے اس قدر متاثر اورعربی زبان میں ان کی قدرت کلام کے اتنے قائل تھے کہ ایک مرتبہ کہ گئے۔شافعی ان لوگوں میں سے ہے جن سے لغت اخذکیجاسکتی ہے۔امام احمد بن حنبلفرمایاکرتے ہیں۔شافعی تمام لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح تھے ۔ امام شافعی کادیوان امام شافعی نے عربی زبان وادب میں مہارت رسوخ او رعبورکامل کے باوجود اس جانب ویسی توجہ نہیں کی جیسی توجہ انہوں نے علوم دینیہ کو دیابطورخاص قرآن وحدیث سے احکام ومسائل کے استنباط کودیا۔ائمہ اسلام عام طورپرعربی زبان وادب میں گہرارسوخ رکھتے تھے اس کے باوجود شعروادب کو پسند نہیں کرتے تھے اورنہ ہی اس کو پسند کرتے تھے کہ کوئی ان کو شعروادب کے حوالہ سے جاناجائے۔زبان وادب میں رسوخ کو وہ صرف علوم دینیہ میں درک اورمہارت اورایک آلہ کے طورپر استعمال کرتے تھے۔ امام شافعی نے خود ایک مرتبہ فرمایا کہ اگرشعرگوئی علماء کیلئے عیب کی بات نہ ہوتی تو میں لبید سے بڑاشاعر ہوتا ۔ ولولاالشعر بالعلماء یزری لکنت الیوم اشعرمن لبید امام شافعی کایہ اعتراف کہہ رہاہے کہ زبان وادب ان کی ترجیحات کی فہرست میں بہت کمتر مقام رکھتاتھااورصرف زبان وادب کے واسطے سے قرآن وحدیث کے صحیح مفہوم ومعانی سے واقفیت اورکبھی کبھار دل کی فرحت اورتازگی کیلئے کچھ اشعار کہہ لینے تک محدود تھا۔اس کے علاوہ ایک اوروجہ یہ تھی اس دور کے محدثین شعر گوئی کو بہتر نہیں سمجھتے تھے اورشعراء وادباء کے متعلق ان کے خیالات منفی تھے اوروہ اس کو برداشت نہیں کرتے تھے اوراس کے بعد ظاہر ہے کہ وہ اپناحکم لگاتے ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ امام شافعی کو ان کے ایک خیرخواہ نے نصیحت کی تھی کہ آپ شعرنہ کہاکریں کیونکہ محدثین ان کو پسند نہیں کرتے۔ امام شافعی شعروادب پر گہری قدرت رکھتے تھے اوروقتافوقتامختلف موضوعات کے متعلق انہوں نے شعر کی صورت میں اپنے جذبات وخیالات کا اظہار بھی کیاہے۔اس سے کسی کو انکار نہیں اوریہ ایک متفقہ فیصلہ ہے۔اختلاف اس میں ہے کہ امام شافعی کی جانب جو دیوان منسوب ہے کیااس کے تمام اشعار امام شافعی کے ہیں یاکچھ امام شافعی اورکچھ کسی اور کے یاپھر مکمل دیوان ہی امام شافعی کی جانب غلط طورپر منسوب ہے۔جیساکہ بہت سے لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جانب غلط طورپر اشعار،خطبات اورڈھیرسارے اقوال منسوب کردیئے ہیں۔اس کے علاوہ عربی اشعار میں تحریف اورلاحقہ کی ایک طویل تاریخ ہے کہ بہت سے اشعار مشہور شعراء کے رنگ میں کہہ کر ان کی جانب منسوب کردیئے گئے ہیں۔ امام شافعی نے اپنی زندگی میں شعراء کے طرز پر کوئی دیوان نہیں لکھااورنہ ہی اس کے جمع کرنے کا اہتمام کیا۔ ان سے صادر ہونے والے اشعار کی حقیقت اتنی ہے کہ کسی موضوع اورٹاپک پر ان کے ذہن میں موجود جذبات وخیالات نے اشعار کی صورت اختیار کرلی اورانہوں نے اپنے شاگردوں اورعقیدتمندوں کے سامنے وہ اشعارپڑھ دیئے۔ان کے شاگردوں نے استاد کا کلام سمجھ کر اسے محفوظ کرلیا۔امام شافعی نے خود کبھی بھی اپنے اشعار کومحفوظ کرنے اورانہین بطورشعرسنانے اورخودکوشاعر کی حیثیت سے پہچانے جانے اورمنوانے کی نہ کوئی کوشش کی اورنہ انہیں اس کی قطعاًکوئی ضرورت تھی کیونکہ ومن یرداللہ بہ خیرایفقہہ فی الدین،اس کے بعد اورکیاباقی رہ جاتاہے۔ امام شافعی کے دیوان کی حقیقت امام شافعی کے سیرت نگاروں میں سے کسی نے بھی نہیں لکھاکہ امام شافعی نے کوئی دیوان چھوڑاہے۔جس سے واضح ہوجاتاہے کہ ان کے کچھ اشعارضرورتھے جو مختلف اوقات میں کہے گئے تھے لیکن نہ توانہوں نے اس کو جمع کرنے کی کوئی کوشش کی اورنہ ہی ان کے شاگردون یاکسی اورنے۔ امام شافعی کے اشعار کے بارے مین حافظ ذہبی نے کہاکہ ہے کہ وہ بہت زیادہ ہیں جب کہ حافظ ابوعبداللہ محمد بن غانم اپنی کتاب مناقب الشافعی مین لکھتے ہیں'قد جمعت دیوان شعرالشافعی کتاباعلی حدة'کہ میں نے امام شافعی کے اشعارکو دیوان کی شکل میں الگ سے جمع کیاہے۔یہ کتاب تاحال زیورطبع سے آراستہ نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے بعد احمد بن احمد العجمی (متوفی 1029نے امام شافعی کے اشعار کو جمع کرنے کاکام کیا۔ چنانچہ انہوں نے 'نتیجة الافکار فیمایعزی الی الامام الشافعی من الاشعار 'کے نام سے ایک مجموعہ تیار کیا۔لیکن وہ بھی ابھی تک مخطوطہ کی شکل میں ہے اوراس ک طباعت نہیں ہوسکی ہے۔سے پہلے امام شافعی کے متفرق اشعارمختلف کتابوں سے جمع کرکے اسے باضابطہ ایک دیوان کی شکل دینے اورشائع کرنے کاکام 1903میں محمد مصطفی نے کیاجب کہ اس نے قاہرہ میں امام شافعی کے اشعار کے مجموعہ کو الجوہرالنفیس فی اشعارالامام احمد بن ادریس کے نام سے شائع کیا۔یہ کتاب 47صفحات پر مشتمل تھی۔اس کے امام شافعی کادیوان محمود ابراہیم ہیبہ دیوانہ نے سنہ 1911میں شائع کیا۔پھر اس کو زہدی یکن نے اپنی تحقیق سے 1961میں شائع کیا۔اس کے بعد امام شافعی کے دیوان کے بہت سارے طباعتی ایڈیشن وغیرہ نکلے۔اس میں تحقیق کے اعتبار سے سب سے بہتراورافضل وہ طباعت ہے جو دارالکتب العلمیہ سے نعیم زرزور کی تحقیق سے شائع ہواہے۔ امام شافعی کے اشعار کی خصوصیات امام شافعی کے تعارف میں پیچھے گزرچکاکہ عربی زبان وادب میں وہ سند کا درجہ رکھتے ہیں اورائمہ لغت میں سے ایک میں ان کاشمار ہے۔لہذا ان کے اشعار ان کے قدرت کلام ،عربی زبان میں گہری مہارت اوررسوخ کاآئینہ ہے۔ ان کے اشعار میں سلاست ،روانی ،شگفتگی،تازگی،فصاحت بلاغت ہرچیز موجود ہے۔ انہوں نے جس موضوع پر جواشعار کہے ہیں اس سے بہترالفاظ میں ان خیالات کواداکرپانابہت مشکل ہے۔ہرلفظ اپنی جگہ نگینے کی طرح جڑاہواہے۔مختصر یہ کہ ان کے اشعار سہل ممتنع کی بہترین مثال ہیں۔یعنیایسی بات کہ ہرشخص یہ سمجھے کہ یہی بات تومیں بھی کہناچاہ رہاتھااورہرشخص کی سمجھ میں آجائے اوربالکل آسان لیکن اگرکوئی ویسے ہی اشعار کہناچاہے تودانتوں تلے پسینہ آجائے۔غالب کے الفاظ میں دیکھناتقریر کی لذت کہ جواس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویایہ بھی میرے دل میں ہے امام شافعی چونکہ معروف معنوں میں کوئی شاعر نہیں تھے اس لئے ان کا کلام تشبیب ،قصائد وغیرہ سے خالی ہے۔بس انہوں نے حکمت ونصیحت اورعبرت وغیرہ کی غرض سے قطعات ونظم کی شکل میں اشعار کہی ہیں۔اورزیادہ تر ایسے اشعار جو فی البدیہہ کسی موقع سے کہے گئے ہیں اس میں زیادہ غوروفکر سے کام نہیں لیاگیاہے۔ امام شافعی کی جانب منسوب اشعار کی حقیقت امام شافعی کے ساتھ بھی وہی مسئلہ درپیش ہے جوہرزبان میں اوربطورخاص عربی زبان کے بڑے ادباء اورشعراکے ساتھ پیش آیا۔یعنی بہت سے لوگوں نے تحریف اورالحاق کے ذریعہ دوسروں کے کلام کوامام شافعی کانام دے دیا یاخود سے شعرکہہ کراسے امام شافعی کی جانب منسوب کردیا۔ مجاہد مصطفی بہجت جوامام شافعی کے دیوان کے محققین میں سے ایک ہیں ان کی تحقیق یہ ہے کہ امام شافعی کے دیوان مین موجود تمام اشعار میں سے چارسواشعار ایسے ہیں جوایک سو35مصادرو مراجع میں موجود ہیں اوران کی نسبت امام شافعی کی جانب پکی اورصحیح ہے۔جب کہ دوسری جانب امام شافعی کے دیوان میں موجود 350جس کے حوالے 103مصادر ومراجع مین موجود ہے ان کی نسبت امام شافعی کی جانب کمزور اورتھوڑی مشکوک ہیں۔ان میں سے بعض اشعار ایسے بھی ہیں جودیگر ادباء اورشعراء کی بھی جانب منسوب ہیں۔ (نوٹ:یہ ساری معلومات دیوان امام شافعی کے پانچ مختلف محققین کی تحقیق سے شائع شدہ کتابوں کے مقدمہ سے ماخوذ ہیں جس میں خاص طورپر دکتورامیل بدیع یعقوب،مجاہد مصفطفی بہجت اورنعیم زرزور قابل ذکر ہیں۔