This is one of the key resources for those researching medieval Islamic history, crusades and Mongol invasions of Muslim lands. Author of this book Ibn Athir is the first hand witness for most of the key events in his era and provides a detailed description of those situations.
With the disintegration of the Seljuqid Empire, he was with the army of the Kurdish adventurer Salah od-Din Ayyoubi in Syria, and has written eye-witness accounts of the battles with the Crusader invaders from Europe, who had usurped Palestine and illegally set up the Latin Kingdom of Jerusalem. He was about 28 years old when Bayt al-Moqaddas and Palestine were liberated after 88 years of Crusader occupation by the joint Islamic army of Kurds, Turks, Arabs and Iranians. This book, his chief work, is a general history of the world, titled "al-Kamel fi’t-Tarikh" (The Complete History), in which he has included reports of the destructive events taking place in the last years of his life in the Islamic east, particularly in Central Asia and Khorasan, where the barbaric Mongol onslaught was destroying centuries of flourishing civilized life. WARNING: It has been noted that regarding Sahaba (Companions of Prophet Muhammad PBUH), some statements are included which are unauthentic and come from unreliable people Any matter related to Sahaba or our belover Prophet PBUH should be judged according to authentic Islamic sources i.e. Quran and Sahih Hadith. In books of history, historians generally combine authentic as well as weak narrations and leave it to the researches to verify their soundness. For a non-academic reader, it can cause problems if they are not able to differentiate between what is weak and what is authentic. Refer to our section on Usool al Hadith to understand more about how to differentiate between these two. |
تاریخ کی کتابوں میں عام طور سے ہر طرح کی روایات کو سند وں کے ساتھ جمع کیا جاتا ہے، تنقیح وتحقیق نہیں کی جاتی ہے، ان روایات کی تنقیح و تحقیق ماہرین فن کے ذمہ ہوتی ہے ، بغیر تنقیح و تحقیق ان روایات پر قبول و عدم قبول کا حکم لگانا درست نہیں
مثال کے طور پر صحابیَ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سلیمان بن سرد کے متعلق اس اور دیگر کتبِ تاریخ میں متعدد روایات موجود ہیں۔ ان روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان بن صرد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت حسین کو کوفہ بلانے کے لیے خطوط لکھے ،اور ان کے تشریف لانے پر انھیں اکیلا چھوڑدیا ، ان کی مدد سے پیچھے ہٹے ، ان کی شہادت پر ندامت ہوئی تو ایک لشکر بناکر ان کا بدلہ لینے کے لیے عبیداللہ بن زیاد سے لڑائی کی، وغیرہ وغیرہ۔ کتبِ تاریخ کی ان تمام روایات کو جو سلیمان بن صرد کے حوالے سے ہیں کسی بھی طرح منِ وعن تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے، لہٰذا جب اس طرح کی روایات کی حقیقت جاننے کے لیے کتبِ تاریخ اور پھر کتبِ رجال کی مراجعت کی تویہ بات واضح ہوگئی کہ ان میں سے اکثر روایات ابو مخنف لوط بن یحیٰ کی گھڑی ہوئی ہیں، لوط بن یحیٰ ابو مخنف کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال ملاحظہ فرمائیں علامہ ذہبی اور ابن حجر کہتے ہیں :اَخْبَارِیٌّ تَألَّفَ لاَ یُوْثَقُ بِہ ابو حاتم وغیرہ نے اسے متروک الحدیث کہا ہے ۔ یحییٰ بن معین نے فرمایا: ”لَیْسَ بِثِقَةٍ، لَیْسَ بِشَيْءٍ“۔ عقیلی نے” ضعفاء“ میں ذکر کیا ہے۔ ابو عبید آجری کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو داؤد سے ابو مخنف کے بارے میں پوچھا ،تو انہوں نے اپنے ہاتھ جھاڑے اور فرمایا کہ کیا کوئی اس کے بارے میں بھی پوچھتا ہے یعنی یہ اس قابل نہیں کہ اس کے بارے میں پوچھا جائے ۔ ابن عراقی کنانی فرماتے ہیں :”کَذَّابٌ تَألَّفَ “(تنزیہ الشریعة:۱/ ۹۸) ابن جو زی نے بھی کذاب کہا ہے، ابن عدی نے فرمایا : ”شِیْعِیٌ مُحْتَرِقٌ، صَاحِبُ أخْبَارِہِمْ“۔ بعض نے تو یہاں تک لکھا کہ یہ” امامی“ شیعہ تھا ۔(الاعلام لخیر الدین الزرکلی:۵ / ۲۴۵)۔ اور اسی بات کی تصدیق شیعہ کتب سے بھی ہوتی ہے۔ ایسے افراد کی گھڑی ہوئی صحابہ کے متعلق بیہودہ باتوں پر کوئی کم عقل ہی یقین کر سکتا ہے۔ اب ایسی روایات کی موجودگی کا تقاضہ ہے کے علمائے حق سے ان امور کو سمجھنے میں مدد لی جائے اور اصحاب العلم کی صحبت حاصل کی جائے۔ اس کتاب کا بہتر استعمال صلیبی جنگوں اور منگولوں کے دور کے بارے میں جاننے کے لئے کیا جا سکتا ہے۔ |
|
|
Contact usAlcock St, Maddington, WA, 6109
|
MAIN BOOKSHELVES |
|