Post Categories
All
|
Post Categories
All
|
ان پڑھ عوام میں دعوت کا کام
تصریحات - ص ۲۴۴، ۲۴۵ سوال:- ۸۰ فیصد ان پڑھ لوگوں کو دعوتِ اسلامی سے کیسے روشناس کرایا جائے؟ جواب :- اسلام کی دعوت جب عرب میں پیش کی گئی تھی اُس وقت کی مخاطب آبادی تقریباً سو فیصد ان پڑھ تھی ۔ قریش جیسے ترقی یافتہ قبیلے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں صرف سترہ افراد پڑھے لکھے تھے ۔ مدینے میں اس سے بھی کم لوگ تعلیم یافتہ تھے ۔ اور باقی عرب کی حالت کا اندازہ آپ ان دو بڑے شہروں کی حالت سے کہ سکتے ہیں ۔ قرآن مجید اُس ملک میں لکھ کر نہیں پھیلا یا گیا تھا ۔ بلکہ وہ لوگوں کو زبانی بتایا۔ جاتا تھا۔ صحابہ کرام اس کو سن کر ہی یاد کرتے تھے ۔ اور پھر زبانی ہی اُسے دوسروں کو سناتے تھے ۔ اسی ذریعہ سے پور اعرب اسلام سے روشناس ہوا ۔ پس درحقیقت لوگوں کا ان پڑھ ہونا کوئی ایسی دشواری نہیں ہے جس کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ نہ ہو سکتی ہو ۔ آغا ز اسلام میں اس دین کی تبلیغ ان پڑھ لوگوں ہی میں کی گئی تھی اور یہ محض زبانی تبلیغ و تلقین ہی تھی جس نے اُن کو اس قدر بدل دیا گیا ، ایسا زبردست انقلاب ان کے اندر برپا کر دیا گیا کہ وہ دنیا کے مصلح بن کر کھڑے ہو گئے ۔ اب آپ یہ کیوں سمجھنے لگے ہیں کہ ۸۰ فیصد اُن پڑھ آبادی میں اسلام کی دعوت نہیں پھیلائی جا سکتی؟ آپ کے اندر ۲۰ فیصد تو پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں ۔ وہ پڑھ کہ اسلام کو سمجھیں اور پھر باقی ۸۰ فیصد لوگوں کو زبانی تبلیغ و تلقین سے دین سمجھائیں۔ پہلے کی بہ نسبت اب یہ کام زیادہ آسان ہو گیا ہے ۔ البتہ فرق جو کچھ ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس وقت جو شخص بھی اسلام کی تعلیمات کوسن کرایمان لاتا تھا وہ ایمان لا کر بیٹھ نہیں جاتا تھا بلکہ آگے دوسرے بندگان خدا تک ان تعلیمات کو پہنچانا اپنا فرض سمجھنا تھا ۔ اس کی تمام حیثیتوں پر مبلغ ہونے کی حیثیت غالب آ جاتی تھی ۔ وہ ہمہ تن ایک تبلیغ بن جاتا تھا ۔ جہاں جس حالت میں بھی اُسے دوسرے لوگوں سے سابقہ پیش آتا تھا ، وہ اُن کے سامنے اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات بیان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا ۔ وہ ہر وقت اس تلاش میں لگا رہتا تھا کہ کسی طرح اللہ کے بندوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی میں لے لائے ۔ جتنا قرآن بھی اُسے یاد ہوتا اُسے لوگوں کو سناتا، اور اسلام کی تعلیمات جتنی کچھ بھی اُسے معلوم ہوتیں ، اُن سے وہ لوگوں کو آگاہ کرتا تھا ۔ وہ انہیں بتاتا تھا کہ صحیح عقائد کیا ہیں جو اسلام سکھاتا ہے اور باطل عقید ہ کیاہے اور وہ خیالات کون سے ہیں جن کی اسلام تردید کرتا ہے ۔ اچھے اعمال اور اخلاق کیا ہیں جن کی اسلام دعوت دیتا ہے، اور وہ برائیاں کیا ہیں جن کو وہ مٹانا چاہتا ہے ۔ یہ سب باتیں جس طرح پہلے سنائی اور سمجھائی جاتی تھیں اسی طرح آج بھی سنائی اور سمجھائی جاسکتی ہیں۔ ان کے لیے نہ سُنانے والے کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے نہ سننے والے کا، یہ ہر وقت بیان کی جا سکتی ہیں اور ہر شخص کی سمجھے میں آسکتی ہیں۔
0 Comments
حکمت مو دودی "
حکمت دعوت حکمت یہ ہے کہ آپ جب کام کرنے اٹھیں تو اپنی تحریک کے نقطہ نظر سے جائزہ لے کر دیکھیں کہ آپ کن حالات میں کام کر رہے ہیں ۔ تحریک کے نقطہ نظرکا جائزہ لینے کا مطلب: دعوت الی الخیر کی ذمہ داری
سید ابو الاعلیٰ مودودی تلخیص و تدوین : خرم مراد مولانا کی ۱۹۲۵ میں الجمیعہ میں لکھی گئی ایک تحریر جو ماہنامہ ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۹۷ میں دوبارہ چھپی۔ اس وقت مولانا کی عمر ۲۲ سال تھی ۔ اس جواں عمر میں ہی مولانا کو جو علمی مرتبہ حاصل تحا اور وہ کس قدر کثیر المطالعہ تھے، وہ اس تحریر میں باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ (An Interview of Maulana Maududi by the Daily Al-Alam, Morocco; Published in Monthly Tarjuman-ul-Quran in Dec 1969)
Introduction The *Daily Al-Alam* is one of the most popular and widely circulated newspapers among Arabic press in Morocco. It is published by the Moroccan Istiqlal Party. During Maulana Maududi's visit to Morocco, a journalist from this newspaper conducted an interview with him. Below, we present their questions along with Maulana's responses. Maulana Syed Abul Aala Maududi The manner in which Prophet Yusuf (AS) found an opportunity to convey his message offers us an essential lesson in the wisdom of propagation. Two men narrate their dreams to him and, out of respect and trust, ask him to interpret them. In response, he tells them that he will indeed provide the interpretation, but first, they should understand the source of the knowledge by which he is able to interpret dreams. Using their inquiry as a segue, he introduces them to his faith. This teaches us that if someone is truly passionate about spreading the truth and possesses wisdom, opportunities for propagation will continuously present themselves. Such a person never feels that there isn’t a chance to convey his message, as he remains vigilant for opportunities and seizes them the moment they arise. However, there is a significant difference between the wise individual’s recognition of opportunities and the clumsy approach of an ignorant preacher, who, without regard for timing or context, tries to force his message into others' ears. Such forceful and abrasive methods often backfire, causing people to become disinterested and even repelled by the message. From this, we can also understand the proper way to present the call to faith. Prophet Yusuf (AS) does not begin by immediately explaining the detailed principles and rules of the faith. Instead, he starts with the foundational point where the path of the people of truth diverges from that of the people of falsehood—namely, the difference between monotheism and polytheism. He then explains this distinction in such a rational manner that any person with common sense cannot help but be convinced. Particularly, the individuals he was addressing at that time would have grasped the point like an arrow hitting its target, for they were slaves, and deep within themselves, they could deeply understand whether it is better to be a slave to one master or to many masters, and whether it is preferable to serve the Master of all creation or to serve created beings. Moreover, he does not directly tell them to abandon their religion and accept his faith. Instead, he adopts a remarkable approach, saying, "Look, how great is Allah’s favor that He has made us slaves to none but Himself, yet people do not appreciate this blessing and insist on creating other deities for themselves and worshiping them." While critiquing their beliefs, he does so in a way that is entirely rational and devoid of any trace of offense or hurtfulness. (Tafheem-ul-Quran, Surah Yusuf, Commentary Note 43) حضرت یوسفؑ نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا، اس میں ہم کو حکمتِ تبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے۔ دو آدمی اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعبیر پوچھتے ہیں۔ جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمھیں ضرور بتاؤں گا، مگر پہلے یہ سن لو کہ اس علم کا ماخذ کیا ہے جس کی بنا پر میں تمھیں تعبیر دیتا ہوں۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپ ان کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی الواقع کسی شخص کے دل میں اگر تبلیغ حق کی دھن سمائی ہوئی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو مواقع پر مواقع آتے ہیں اور وہ کبھی محسوس نہیں کرتا کہ یہ موقع ہے اپنی بات کہنے کا۔ مگر وہ جسے دھن لگی ہوئی ہوتی ہے وہ موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے اور اسے پاتے ہی اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور اس نادان مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں زبردستی اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑپن اور جھگڑالوپن سے انھیں الٹا متنفر کر کے چھوڑتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے۔ حضرت یوسفؑ چھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کردیتے، بلکہ ان کے سامنے دین کے اس نقطہ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہل حق کا راستہ اہل باطل کے راستے سے جدا ہوتا ہے، یعنی توحید اور شرک کا فرق۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقل عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دل و دماغ میں تو تیر کی طرح یہ بات اتر گئی ہوگی، کیوں کہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کر سکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقاؤں کا، اور سارے جہاں کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی۔ پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آجاؤ، بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو، اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا، مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑ گھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کےدین پر تنقید بھی کرتے ہیں، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر۔ (تفہیم القرآن، سورة یوسف، حاشیہ نمبر ۴۳) Mawlana Abul Lais Islahi Nadvi (RA) There is a need to establish a comprehensive and multi-dimensional system of religious education and training so that every Muslim can become adequately familiar with the basic knowledge of Islam. However, basic knowledge does not merely refer to matters of faith, beliefs, and the essential rulings of prayer and fasting. Rather, it encompasses the understanding that Islam’s teachings are not limited to just beliefs and worship but also extend to ethics and worldly matters. This means that the widespread perception of a separation between religion and the worldly life needs to be eliminated and replaced with an understanding of the all-encompassing nature of Islam. Without this, neither can Muslims lead a truly Islamic life, nor can they remain safeguarded against the temptations and challenges of the modern age. Today, the reason why many Muslims are rapidly falling prey to anti-religion or non-religious movements is that they perceive these movements as solely addressing worldly issues and believe that religion has no relevance to such matters. Consequently, their interest in religion is waning. Moreover, the current practical model of religion that is commonly observed further alienates the educated class of this era from Islam. They begin to see Islam as something irrelevant, unable to provide any perspective on the practical challenges of the time, let alone offer solutions to them. Therefore, we need to devise a comprehensive program for this purpose. (From "Muslims of India after Independence") دینی تعلیم کے وسیع پروگرام کی ضرورت
مولانا ابوللیث اصلاحی ندویؒ دینی تعلیم وتربیت کا ایک ایسا وسیع اور ہمہ گیر نظام قائم کرنا چاہیے کہ ہر مسلمان دین کی ابتدائی معلومات سے ضروری طور سے واقف ہوسکے، لیکن ابتدائی معلومات سے مراد صرف ایمان وعقیدہ اور نماز روزہ کے ضروری مسائل ہی نہیں ہیں، بلکہ اس میں دین کا یہ علم بھی داخل ہے کہ اس کا تعلق صرف عقائد وعبادات ہی سے نہیں ہے بلکہ اخلاق اور دنیاوی معاملات سے بھی ہے۔ یعنی تفریق دین ودنیا کا جو تصور عام ہے، اس کو مٹاکر اس کی بہ جائے دین کی وسعت وہمہ گیری کا تصور عام کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر نہ صحیح معنوں میں ان کی زندگی اسلامی زندگی ہوسکتی ہے اور نہ وہ عہد حاضر کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ آج جو مسلمان تیزی کے ساتھ لادینی تحریکات کا شکار ہوتے جارہے ہیں، اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کے نزدیک یہ تحریکات دنیاوی معاملات ومسائل کے حل سے تعلق رکھتی ہیں اور دین کو ان مسائل سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ ان کی دل چسپی ایسے ہی کم ہوتی جارہی ہے۔ پھر اس تصور کے مطابق ہمارا جو دینی عملی نمونہ ہر جگہ دیکھنے میں آرہا ہے وہ بہ جائے خود اس زمانے کے ذہین طبقہ کو دین سے بے رغبت کرنے والا ہے۔ وہ ایسے دین کو ایک لایعنی شے سمجھنے لگے ہیں جو زمانہ کی عملی دشواریوں میں کوئی نقطہ نظر ہی نہ رکھتا ہے چہ جائے کہ وہ ان کے حل میں کچھ معاون ثابت ہوسکے۔ اس غرض کے لیے ہمیں ایک وسیع پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلمانان ہند آزادی کے بعد Praying to others instead of Allah is like someone writing a request and taking it to a government office, but instead of submitting it to the primary authority, they present it to someone else who is there to make their own requests and is waiting just like other petitioners. Then, this person starts pleading, saying to the other petitioner, “You are in charge here, only your orders matter, and if you fulfill my request, it will be done.” Such behavior, first and foremost, reflects great foolishness and ignorance. However, it also becomes an act of extreme disrespect when the main authority is present, yet the request is being submitted and pleaded to someone else. This ignorance reaches its peak when the person being asked repeatedly clarifies that he is just a petitioner like you, with no power to fulfill your request. The true authority is present; submit your request to Him. Despite being told this multiple times, the foolish person insists, saying, “You are my authority, and only you can fulfill my request.” Keeping this analogy in mind, try to understand Allah’s statement: “Call upon Me; I will respond to your prayers. Accepting them is My responsibility.” (Reference: *Tafheem-ul-Quran*, Syed Abul A'la Maududi, *Tarjuman-ul-Quran*, Vol. 62, No. 1, September 1964, pp. 29-30). اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دُعامانگنا بالکل ایسا ہے، جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوانِ حکومت کی طرف جائے، مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں،اُنھی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کردے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ ’’حضور ہی سب کچھ ہیں، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے، میری مراد آپ ہی بَر لائیں گے تو بَر آئے گی‘‘۔
یہ حرکت اوّل تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے، لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے، جب کہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو، اور عین اس کی موجودگی میں اُسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جارہی ہوں۔ پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اُس وقت پہنچ جاتی ہے، جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جارہی ہو، خود بار بار اُس کو سمجھائے کہ مَیں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اصل حاکم سامنے موجود ہیں، تو اُن کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجو د یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ ’’میرے سرکار تو آپ ہیں، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا‘‘۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ ’’مجھے پکارو، تمھاری دُعائوں کا جواب دینے والا میں ہوں، انھیں قبول کرنا میرا کام ہے‘‘۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲، عدد۱، ستمبر ۱۹۶۴ء، ص۲۹، ۳۰) |
AuthorWrite something about yourself. No need to be fancy, just an overview. Archives
November 2024
Categories
All
|
Contact usAlcock St, Maddington, WA, 6109
|
MAIN BOOKSHELVES |
|