Post Categories
All
|
Post Categories
All
|
دعوت الی الخیر کی ذمہ داری سید ابو الاعلیٰ مودودی تلخیص و تدوین : خرم مراد مولانا کی ۱۹۲۵ میں الجمیعہ میں لکھی گئی ایک تحریر جو ماہنامہ ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۹۷ میں دوبارہ چھپی۔ اس وقت مولانا کی عمر ۲۲ سال تھی ۔ اس جواں عمر میں ہی مولانا کو جو علمی مرتبہ حاصل تحا اور وہ کس قدر کثیر المطالعہ تھے، وہ اس تحریر میں باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اغیار کی تبلیغ سے جب ارتداد کی وبا پھیلتی ہے، مسلمانوں میں عام **کھلبلی** مچ جاتی ہے۔ ہر طرف سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی آواز بلند ہونے لگتی ہے۔ لیکن ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم آج کل کے مسلمان اس ذوق تبلیغ سے بالکل ہی نا آشنا ہیں جو کسی زمانے میں اسلام کی فاتحانہ قوتوں کا ضامن اور اس کی عالمگیری اور جہاں کشائی کا سب سے زیادہ کارگر ہتھیار تھا۔ اگر آج ہمارے اندر وہی ذوق موجود ہوتا تو شاید کانفرنسوں اور مجلسوں کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور غیروں کی چیرہ دستیوں سے ہمارے گھر میں ماتم بپا ہونے کے بجائے خود اغیار کے مجمع میں ہمارے مذہب کی بڑھتی ہوئی قوت سے کھلبلی مچی ہوئی ہوتی۔ بعض وقت جب ہم غور کرتے ہیں کہ یہ اس مذہب کی چیخ و پکار ہے جس کے عناصر ترکیبی میں دعوت الی الخیر اور تبلیغ دین الہی کا فرض ایک لازمی عنصر کی حیثیت سے شامل تھا، جس کے داعی نے اپنی ساری زندگی خدا کا آخری پیغام اس کے بندوں تک پہنچائے میں صرف کر دی تھی، اور جس کے مقدس پیروؤں نے ایک صدی کے اندر اندر بحر الکاہل کے کناروں سے لے کر بحر اوقیانوس کے ساحل تک کلمہ حق کی اشاعت کر دی تھی، تو ہم حیران ہو کر سوچنے لگتے ہیں کہ آیا یہ وہی مذہب ہے یا ہم مسلمانوں نے بنی اسرائیل کی طرح اپنے پیغمبر کے بعد کوئی اور نیا مذہب بنا لیا ہے۔
ہماری زبانوں پر تبلیغ تبلیغ کا ورد جاری ہے اور ہم تبلیغ کے لیے انجمنیں بنا کر اسلام کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں، مگر شاید یہ اسلام کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے کہ اس کے پیروؤں نے عیسائیوں کی طرح مشنری سوسائٹیاں بنانے کی کوشش کی ہے، یا اس بے تابی کے ساتھ تبلیغ کا شور مچایا ہے۔ اگر کامیابی کا حقیقی راز صرف انجمن سازیوں اور شور و شغب میں ہوتا تو یقینا ہماری ترقی کی رفتار ہمارے اسلاف سے زیادہ تیز ہونی چاہیے تھی۔ لیکن اس کے برخلاف ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سازو سامان کو لے کر ہمارا ہر قدم پیچھے اٹھ رہا ہے اور اس بے سر و سامانی کے عالم میں ہمارے اسلاف کی کامیابیوں کا یہ عالم تھا کہ ان کی بدولت آج دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کے پیرو موجود ہیں۔ پھر آخر سوچنا تو چاہیے کہ ہم میں کس چیز کی کمی ہے اور اشاعت اسلام کا اصلی راز کیا ہے؟ مسلمان کا مقصد وجود پروفیسر میکس ملر (Max Muller) کے بقول اسلام در اصل ایک تبلیغی مذہب ہے جس نے اپنے آپ کو تبلیغ کی بنیادوں پر قائم کیا۔ اسی کی قوت سےاس کی ترقی کی اور اسی پر اس کی زندگی کا انحصار ہے۔ اسلامی تعلیمات پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ صرف دعوت حق ہے اور مسلمان کی زندگی کا اگر کوئی مقصد ہے تو وہ صرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ قرآن حکیم میں مسلمان کا مقصد حیات ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ کنتم خير امة اخرجت للناس۔ آل عمران ۳: ۱۰۴ ۔دنیا کے لیے اس امت کے وجود کی ضرورت صرف یہی ظاہر کی گئی ہے اور اسے جگہ جگہ یہی حکم دیا گیا ہے۔ یہی تعلیم تھی کہ جس کا اثر رسول اکرم کی زندگی پر سب سے زیادہ غالب تھا اور اس نے حضرات صحابہ کرام کی زندگیوں کو بالکل بدل دیا تھا۔ ان کی مقدس زندگیاں عبارت تھیں صرف دعوت و تبلیغ سے۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، غرض ہر کام اپنے اندر یہ معنوی مقصد پوشیدہ رکھتا تھا کہ خدا کی طرف لوگوں کو بلائیں اور اللہ کے بندوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین کریں۔ جب تک مسلمانوں میں قرآن حکیم اور اسوہ رسول کی ان تعلیمات کا اثر باقی رہا اس وقت تک ہر مسلمان کی زندگی ایک مبلغ اور داعی کی سی زندگی رہی۔ انھوں نے صنعت، تجارت، زراعت، حکومت اور دنیا کے سارے کام کیے ، مگر دل میں یہ لگن رہی کہ اسلام کی جو نعمت خدا نے ان کو عطا کی ہے اس سے تمام بنی نوع انسان کو بہرہ مند کرنے کی کوشش کریں۔ وہ حقیقتاً اسلام کو دنیا کے لیے بہترین نعمت سمجھتے تھے اور اس لیے ان کا ایمان تھا کہ ہر انسان تک اس نعمت کو پہنچانا ان کا فرض ہے۔ جو شخص جس حال میں تھا اسی حال میں وہ یہ فرض انجام دیتا تھا۔ تاجروں نے تجارت کے کام میں، مسافروں نے اپنے سفر کے دوران میں قیدیوں نے اپنے قید خانوں میں ، ملازموں نے اپنے دفتروں میں اور مزارعوں نے اپنے کھیتوں میں یہ مقدس خدمت انجام دی۔ یہ ذوق اس حد تک ترقی کر گیا کہ عورتوں تک نے نہایت مستعدی اور سرگرمی کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کی۔ اسلام کی قوت کا اصلی سرچشمہ یہی ذوق حقیقتاً اسلام کی قوت کا اصلی سرچشمہ تھا۔ آج جو دنیا میں کروڑوں مسلمان نظر آ رہے ہیں۔ اور دنیا کی مختلف نسلوں، مختلف قوموں اور مختلف ملکوں پر اسلام کی حکومت قائم ہے، وہ صرف اسی ذوق تبلیغ کا نتیجہ ہے۔ اسلام کے دشمن کہتے ہیں کہ اس کی اشاعت صرف تلواروں کی رہین منت ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ وہ صرف تبلیغ کی منت پذیر ہے۔ اگر اس کی زندگی تلوار پر ہی منحصر ہوتی تو وہ تلوار ہی سے فنا بھی ہو جاتی اور اب تک تلوار سے اس پر جتنے حملے ہوئے ہیں، وہ اسے فنا کر دینے میں قطعا کامیاب ہو جاتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اوقات اس نے تلوار سے مغلوب ہو کر تبلیغ سے فتح حاصل کی۔ ایک طرف بغداد میں قتل جاری تھا اور دوسری طرف سماٹرا میں اسلام کی حکومت قائم ہو رہی تھی۔ ایک طرف قرطبہ اندلس سے اسلام مٹایا جا رہا تھا اور دوسری طرف جاوا میں اس کا علم بلند ہو رہا تھا۔ ایک طرف صقلیہ سے اسے ختم کیا جا رہا تھا اور دوسری طرف جاوا میں اس کو نئی زندگی حاصل ہو رہی تھی۔ ایک طرف تاتاری اس کے گلے پر چھری پھیر رہے تھے اور دوسری طرف وہ خود ان کے دلوں کو فتح کر رہا تھا۔ ایک طرف ترک اسے غلامی کا طوق پہنا رہے تھے اور دوسری طرف خود ان کے دل اپنے آپ کو اس کی غلامی کے لیے پیش کر رہے تھے۔ اگر یہ اس کی تبلیغ کی فتح نہیں تھی تو اور کیا تھا؟ آج اسلام کی وہ فتوحات جنھیں شمشیری فتوحات کہا جا سکتا ہے، دنیا سے مٹ چکی ہیں۔ اسپین فنا ہو چکا صقلیہ مٹ گیا، یونان تباہ ہو گیا مگر وسط افریقہ، جاوا، سماٹرا، اسپین اور جزائر ملایا (Malay Islands) جنھیں اس نے تبلیغ کے ہتھیار سے فتح کیا ہے، بدستور موجود ہیں اور اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کی زندگی تبلیغ اور صرف تبلیغ پر منحصر ہے۔ پھر کیا یہ تبلیغ مشنری سوسائٹیوں کے ذریعے کی گئی تھی؟ کیا یہ عظیم الشان فتوحات اسی بے عمل چیخ پکار کے ذریعے حاصل ہوئی تھیں جس میں آج ہم مشغول ہیں؟ کیا یہ عالمگیریاں ان رسالہ بازیوں، ان کاغذی لڑائیوں اور ان قلمی ترکتازیوں کی منت کش ہیں جنھیں ہم نے مسیحی مبلغین کی تقلید میں اختیار کیا ہے۔ تاریخ اس کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ اشاعت اسلام کے اسباب اگر واقعات و حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تین چیزیں لازمی عنصر کی حیثیت سے شریک ہیں: ایک اس کے سادہ عقائد اور دلکش عبادات۔ دوسرے مسلمانوں کی زندگی میں اس کی تعلیم کے حیرت انگیز نتائج۔ اور تیسرے مسلمانوں کا ذوق تبلیغ۔ پہلی چیز عقل سے اپیل کرتی ہے، دوسری جذبات کو ابھارتی ہے، اور تیسری ایک مشفق رہنما کی طرح بھولے بھٹکوں کو راہ راست پر لگاتی ہے۔ جس طرح بازار میں ایک متاع کی مقبولیت کے لیے صرف اس کی ذاتی خوبی ہی ضمانت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے ایسے کارکنوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو اس کی خوبیاں اور فوائدکو لوگوں کے ذہن نشین کرائیں، اور ایسے شاہد بھی درکار ہوتے ہیں جو اپنے اندر اس کے منافع کی عملی شہادت دیں، اسی طرح دنیا میں اسلام کی اشاعت کے لیے بھی ان تینوں چیزوں کے مساویانہ اشتراک عمل کی ضرورت رہی ہے۔ اور جب کبھی اس میں کسی ایک کی کمی رہ گئی ہے تو ضرور اشاعت اسلام کی تیز رفتاری پر بھی اس کا اثر پڑا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اصل چیز تو وہی اسلام کی ذاتی خوبیاں اور عملی محاسن ہیں جو ہر قلب سلیم سے اس کو ایک سچا دین قبول کرا لیتی ہیں۔ اسلام خواہ کتنا ہی سچا اور بہتر مذہب ہو، مگر اس کی اشاعت کے لیے صرف اس کی ذاتی خوبیاں ہی کافی نہیں ہو سکتیں، بلکہ اس کے پیروؤں کا ذوق تبلیغ بھی ضروری ہے، بلکہ زیادہ صحیح طور پر یہ ذوق تبلیغ اشاعت اسلام کے ارکان ثلاث میں عملی رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے ذوق تبلیغ کی جہانگیری آج ہم بے عمل مسلمان اس حیرت انگیز ذوق تبلیغ کا ٹھیک ٹھیک تصور بھی نہیں کر سکتے جو گذشتہ زمانے کے دیندار مسلمانوں میں کام کر رہا تھا۔ ان لوگوں کے وظائف حیات میں سب سے زیادہ اہم وظیفہ اگر کوئی تھا تو وہ صرف اس دین کی صداقت کو بنی نوع انسان کے زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچانا تھا جس کی روشنی سے ان کے دل معمور تھے۔ ان کے دلوں پر یہ عقیدہ پتھر کی لکیر بنا ہوا تھا کہ مسلمان کی حیثیت سے ان کی پیدائش کا مقصد صرف دعوت الى الخير امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ وہ جہاں جاتے تھے یہ مقصد ان کے ساتھ جاتا تھا اور ان کی زندگی کے ہر عمل میں اس کی شرکت لازمی تھی۔ وہ قریش کے مظالم سے بھاگ کر حبشہ گئے تو وہاں بھی انھوں نے صرف یہی کام کیا۔ انہیں مکہ سے نکل کر مدینہ میں امن کی زندگی نصیب ہوئی تو اپنی تمام قوت انھوں نے اسی تبلیغ دین الہی میں صرف کر دی۔ ان کو ساسانی اور رومانی تہذیبوں کے بوسیده قصر گرا دینے کی خدمت عطا کی گئی تو شام و عراق اور ایران و روم میں بھی انھوں نے صرف یہی مقدس فرض انجام دیا۔ انھیں خدا نے زمین کی خلافت عطا فرمائی تو اس سے بھی انھوں نے عیش پرستی نہیں کی بلکہ وہ اللہ کے دین کی اشاعت کرتے چلے گئے یہاں تک کہ ایک طرف اوقیانوس کی طوفانی موجوں نے انھیں روک دیا اور دوسری طرف چین کی سنگین دیوار ان کے راستے میں حائل ہو گئی۔ وہ اپنے تجارت کے مال لے کر نکلے تو اس میں بھی ان کے دلوں پر یہی خواہش چھائی رہی۔ انھوں نے افریقہ کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں ہندستان کی سرسبز وادیوں میں بحر الکاہل کے دور افتادہ جزیروں میں، اور یورپ کے سپید رنگ کفر زاروں میں ملت حنیفی کی روشنیوں کو پھیلا دیا۔ یہ ذوق تبلیغ یہاں تک ترقی کر گیا تھا کہ قید خانوں کی کڑی سے کڑی مصیبتیں جھیلتے وقت بھی ان کے ولوں سے اس کی لذت محو نہیں ہوتی تھی۔ وہ اندھیری کوٹھڑیوں میں اپنے اصحاب سجن کو بھی اسلام کی تبلیغ کرتے تھے۔ اور حد یہ ہے کہ دار پر بھی انھیں اگر کسی چیز کی تمنا ستاتی تھی تو وہ صرف یہی تھی کہ اپنے آخری لمحات زندگی کو اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں صرف کر دیں۔ بیلجین کانگوکا ایک واقعہ مشہور ہے کہ جب حکومت نے وہاں کے ایک مسلمان امیر کو گرفتار کر کے سزائے موت کا حکم سنا دیا تو اس نے دنیا سے چلتے چلتے خود اس پادری کو بھی مسلمان کر لیا جو اسے مسیحیت کا پیغام نجات دینے گیا تھا۔ مشرقی یورپ میں تو اسلام کی اشاعت تنہا ایک مسلمان عالم کی کوششوں کا نتیجہ تھا جو نصاریٰ سے جہاد کرتا ہوا گر فتار ہو گیا تھا۔ قید کی حالت میں وہ پابہ زنجیر ڈان اور ڈینوب کے درمیانی علاقے میں بھیج دیا گیا اور وہاں اس کے خلوص قلب کی روشنی اس قدر پھیلی کہ تھوڑے عرصے میں بارہ ہزار آدمی مسلمان ہو گئے اور چھٹی صدی ہجری کے وسط میں تقریباً سارا علاقہ اسلام کی برکات سے معمور ہو گیا۔ مسلمان خواتین کا ذوق تبلیغ اس عالمگیر ذوق سے مسلمانوں کی عورتیں بھی خالی نہ تھیں۔ تاتاری مغلوں سے جن ہاتھوں نے مسلم کشی کی تلوار چھین کر اسلام کی اطاعت کا طوق پہنایا تھا وہ انھی ضعیف اور نازک عورتوں کے ہاتھ تھے جنھیں یہ لوگ ممالک اسلامیہ سے لونڈیاں بنا کر لے گئے تھے۔ غازان شاہ کے بھائی اولجاتیو خاں کو اس کی بیوی ہی نے مسلمان کیا تھا اور اس کی بدولت ایلخانی حکومت ایک اسلامی حکومت بن گئی تھی۔ چغتائی خاندان مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن تھا مگر قرہ، ہلاکو خان کی مسلمان بیوی، نے اسے سب سے پہلے اسلام سے متعارف کیا اور اس کے اثر سے مبارک شاہ اور براق خاں مسلمان ہوئے۔ تاتاری فوجوں کے ہزار ہا سپاہی اپنے ساتھ مسلمان عورتوں کو لے گئے تھے۔ انھوں نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر اپنے کافر شوہروں کا مذہب اختیار کرنے کے بجائے انھیں، اور زیادہ تر ان کے بچوں کو ، مسلمان کر لیا اور انھی کی بدولت تمام بلاد تاتار میں اسلام پھیل گیا۔ اسی طرح ملک حبش میں بھی خواتین ہی نے اشاعت اسلام کا کام کیا ہے۔ چنانچہ متعدد ایسے حبشی رئیسوں کا تذکرہ تواریخ میں مذکور ہے جنھیں ان کی مسلمان بیویوں نے اسلام کا حلقہ بگوش بنا لیا تھا۔ سنوسی مبلغین نے تو وسط افریقہ میں مستقل طور پر اشاعت اسلام کے لیے خواتین کے اداروں سے کام لیا ہے۔ چنانچہ وہاں سیکڑوں زنانہ مدارس قائم ہیں جن میں لڑکیوں کو اسلامی تعلیم دی جاتی ہے۔ صوفیائے کرام کی خدمات ہندستان میں مسلمانوں میں جو جماعت سب سے زیادہ تبلیغ دین الہی کے لیے ذوق و شوق سے گرم سعی رہی ہے وہ وہی صوفیائے کرام کی جماعت ہے جو آج ہندستان میں اس طرف سے تقریباً بالکل ہی غافل ہے۔ خود ہندستان میں اولیاء و صوفیا نے جس بے نظیر استقلال اور دینی شغف کے ساتھ اسلام کی روشنیوں کو پھیلایا ہے وہ ہمارے آج کل کے حضرات متصوفین کے لیے اپنے اندر ایک عمیق درس بصیرت رکھتا ہے۔ یہاں کے سب سے بڑے اسلامی مبلغ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری تھے جن کی برکت سے راجپوتانہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی، اور جن کے بالواسطہ اور بلاواسطہ مریدین تمام اقطاع ملک میں اسلام کی شمع ہدایت لے کر پھیل گئے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے دہلی کے اطراف میں، حضرت فرید الدین گنج شکر نے علاقہ پنجاب میں، حضرت نظام الدین محبوب الہی نے دہلی اور اس کے نواح میں، حضرت سید محمد گیسو دراز حضرت شیخ برہان الدین اور حضرت شیخ زین الدین اور آخر زمانے میں اورنگ آباد کے حضرت نظام الدین نے ملک دکن میں اور دور آخر میں حضرت شاہ کلیم اللہ جہان آبادی نے دہلی مرحوم میں یہی دعوت الی الخیر اور تبلیغ اوامر اسلام کی خدمت انجام دی۔ ان کے علاوہ دوسرے سلسلوں کے اولیائے عظام نے بھی اس کام میں انتھک مستعدی سے کام لیا۔ پنجاب بھر میں سب سے پہلے اسلامی مبلغ حضرت سید اسماعیل بخاری تھے جو پانچویں صدی ہجری میں لاہور تشریف لائے تھے۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ لوگ ہزارہا کی تعداد میں ان کے ارشادات سننے آتے تھے اور کوئی شخص جو ایک مرتبہ ان کا وعظ سن لیتا وہ اسلام لائے بغیر نہ رہتا۔ مغربی پنجاب میں اسلام کی اشاعت کا فخر سب سے زیادہ حضرت بہاء الحق زکریا ملتانی کو حاصل ہے۔ علاقہ بہاولپور اور مشرقی سندھ میں حضرت سید جلال بخاری کے فیضان تعلیم سے معرفت حق کی روشنی پھیلی۔ ان کی اولاد میں حضرت مخدوم جہانیاں نے پنجاب کے بیسیوں قبائل کو مسلمان کیا۔ ایک اور بزرگ حضرت سید صدر الدین اور ان کے صاحبزادے حضرت حسن کبیر الدین بھی پنجاب کے بہت بڑے اسلامی مبلغ تھے۔ حضرت حسن کبیر الدین کے متعلق تواریخ میں لکھا ہے کہ ان کی شخصیت میں عجیب کشش تھی۔ محض ان کے دیکھ لینے سے دل پر اسلام کی عظمت و صداقت کا نقش مرتسم ہو جاتا تھا اور لوگ خود بخود ان کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔ سندھ میں اشاعت اسلام کا اصلی زمانہ وہ ہے جب حکومت کا دور ختم ہو چکا تھا۔ آج سے تقریباً چھ سو برس پہلے حضرت سید یوسف الدین وہاں تشریف لائے اور ان کے فیض اثر سے لوہانہ ذات کے سات سو خاندانوں نے اسلام قبول کر لیا۔ کچھ اور گجرات میں حضرت امام شاہ پیرانوی اور ملک عبداللطیف کی مساعی سے اسلام کی اشاعت ہوئی۔ بنگال میں سب سے پہلے شیخ جلال الدین تبریزی نے اس مقدس فرض کو انجام دیا جو حضرت شیخ شہا ب الدین سہروردی کے مریدان خاص میں سے تھے۔ آسام میں اس نعمت عظمیٰ کو حضرت شیخ جلال الدین فارسی اپنے ساتھ لے گئے جو سلہٹ میں مدفون ہیں۔ کشمیر میں اسلام کا علم سب سے پہلے بلبل شاہ نامی ایک دردیش نے بلند کیا اور ان کے فیض صحبت سے خود راجہ مسلمان ہو گیا جو تاریخوں میں صدر الدین کے نام سے مشہور ہے۔ پھر ساتویں صدی ہجری میں سید علی ہمدانی سات سو سیدوں کے ساتھ یہاں تشریف لائے اور تمام خطہ کشمیر میں اس مقدس جماعت نے نور عرفان کو پھیلایا۔ حضرت عالمگیر کے عہد میں سید شاہ فرید الدین نے کشتوار کے راجہ کو مسلمان کیا اور اس کے ذریعے علاقہ مذکور میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ دکن میں اسلام کی ابتدا پیر مہابیر کہمدایت سے ہوئی جو آج سے سات سو برس پہلے بیجاپور تشریف لائے تھے۔ ایک اور بزرگ جو حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کی اولاد میں سے تھے علاقہ كونكن کے ہادی اور رہبر تھے۔ دھارواڑ کے لوگ اپنے اسلام کو حضرت شیخ ہاشم گجراتی کی طرف منسوب کرتے ہیں جو ابراہیم عادل شاہ کے پیر طریقت تھے۔ ناسک میں حضرت محمد صادق سرمست اور خواجہ اخوند میر حسنی کی برکات روحانی کا اب تک اعتراف کیا جاتا ہے۔ مدراس بھی اپنی ہدایت کے لیے چند صاحب حال بزرگوں کا رہین منت ہے جن میں سب سے زیادہ مشہور سید نثار شاہ مدفون ترچنا پلی ہیں۔ دوسرے بزرگ سید ابراہیم شہید ہیں جن کا مزار ارداری میں ہے۔ اور تیسرے بزرگ شاہ الحامد ہیں جن کا مدفن ناگور میں واقع ہے۔ نیو گنڈا کی طرف کی اسلامی آبادی عام طور پر اسلام کو حضرت بابا فرید الدین کی طرف منسوب کرتی ہے جنھوں نے وہاں کے راجہ کو مسلمان کیا تھا۔ حضرات صوفیائے کرام کی اٹھی تبلیغی سرگرمیوں کا اثر آج تک ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوؤں کی ایک بہت بڑی جماعت اگرچہ مسلمان نہ ہو سکی مگر اب تک اسلامی پیشواؤں کی گرویدہ ہے۔ چنانچہ ۱۸۹۱ کی مردم شماری میں صوبہ شمال مغربی موجودہ صوبہ متحدہ کے ۲۳۲۳۶۴۳ ہندوؤں نے اپنے آپ کو کسی خاص دیوتا کا پرستار بتلانے کے بجائے کسی نہ کسی مسلمان پیر کا پجاری ظاہر کیا تھا۔ افسوس کہ وہ لوگ ہندوؤں کی ایک کثیر آبادی پر اسلام کا غیر معمولی اثر چھوڑ گئے مگر آج ہم اس اثر سے بھی فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔ هندستان سے باہر ہندستان سے باہر بعض دوسرے ممالک میں بھی اس مقدس جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں نے حیرت انگیز نتائج پیدا کیے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ قرون متوسط کی تاریخ میں تو یہ واقعہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جب فتنہ تاتار نے اسلامی حکومت کے قصر فلک بوس کی اینٹ سے اینٹ بجادی، تو تمام وسط ایشیا میں صرف ایک صوفیائے اسلام کی روحانی قوت تھی جو اس کے مقابلے کے لیے باقی رہ گئی تھی اور بالآخر اسی نے اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن پر فتح حاصل کی۔ لیکن مسلمانوں کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ زبردست قوت بھی جس نے اقطاع عالم میں اسلام کی روشنی پھیلائی اور تاتار کے زبردست فتنے تک کو اس کے لیے مسخر کر دیا جو قریب تھا کہ وسط ایشیا سے اس کو بالکل فنا کر دیتا آج بالکل مضمحل ہو گئی ہے۔ اگر ہمارے محترم حضرات متصوفین ہمیں معاف کریں تو ہمیں اس امر واقعی کے اظہار میں بھی کچھ تامل نہیں ہے کہ اب وہ اسلام کی برکات و فیوض سے دنیا کو معمور کرنے کے بجائے بہت حد تک خود ہی غیر اسلامی مفاسد سے مغلوب ہو کر رہ گئے ہیں۔ افریقہ میں موجودہ عہد ۱۹۳۵ میں یہ قوت صرف افریقہ میں زندہ ہے اور تبلیغ دین الہی کے سلسلے میں اس کی عظیم الشان کامیابیاں ہمارے ملک کے صوفیاے کرام کے لیے سرمایہ عبرت و بصیرت ہیں۔ ان صوفی جماعتوں میں ایک جماعت امیر غنیہ" ہے جس کے بانی محمد عثمان الامیر غنی نے ۱۸۳۵ سے ۱۸۵۳ تک مشرقی سوڈان کے مسلمانوں کی دینی اصلاح کی اور اطراف میں بیسیوں بت پرست قبائل کو مسلمان کر لیا۔ دوسری جماعت قادریہ ہے۔ مغربی افریقہ میں اس سلسلے کے لوگ نویں صدی ہجری سے موجود ہیں۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں ان کے اندر بھی ایک نئی زندگی پیدا ہوئی اور انھوں نے مغربی سوڈان سے لے کر ٹمبکٹو اور سینیگال تک اپنے حلقے قائم کر لیے۔ خصوصیت کے ساتھ نانگا ٹیمبو اور مساردو میں انھوں نے بہت بڑے حلقے قائم کر لیے اور نہایت کثرت سے بت پرست قبائل میں اسلام کی اشاعت شروع کر دی۔ ان کا اصول یہ ہے کہ جب کسی آبادی میں اسلام کی اشاعت کر چکتے ہیں تو وہاں کے ذہین اور صاحب استعداد لڑکوں کو اپنے مرکزی حلقوں میں تعلیم کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ یا اگر ان میں زیادہ صلاحیت دیکھتے ہیں تو علوم دینی کی تکمیل کے لیے قیروان، فاس، طرابلس یا الازھر بھیج دیتے ہیں اور پھر واپسی پر انھی کو اپنی بستیوں میں تبلیغ و تعلیم کے لیے مقرر کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے نہایت کثرت سے اندرون افریقہ میں مدارس قائم کر رکھے ہیں اور ان میں صحیح اصولوں پر وحشی قبائل کے لڑکوں کی تربیت کرتے ہیں۔ ایک اور سلسلہ ”تیجانیہ" کے نام سے مشہور ہے جو سب سے پہلے الجزائر میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے اصول تبلیغ تقریباً وہی ہیں جو سلسلہ قادریہ کے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ وہ تبلیغ کے ساتھ جہاد بھی کرتا ہے اور اس لیے عیسائی مشنریوں کو اس کے خلاف یورپی استعمار سے مدد حاصل کرنے کا اچھا خاصا بہانہ ہاتھ آ جاتا ہے۔ اس کا حلقہ اثر شمالی افریقہ کا مغربی حصہ ہے اور اس کا سب سے زیادہ سرگرم داعی، الحاج عمر تھا جو اپنے زہد و تقویٰ کے لیے افریقہ سے حجاز تک شہرت رکھتا تھا۔ اس نے ۱۸۳۳ میں تبلیغ کا کام شروع کیا اور بالائی نا بیریا اور سینیگال تک کے بت پرست قبائل کو مسلمان کر کے ایک زبردست سلطنت قائم کر لی، جسے آخر میں فرانسیسی استعمار نے پیوند خاک کر دیا۔ ان تمام جماعتوں میں سب سے زیادہ زبردست سنوسی جماعت ہے۔ ۱۸۳۳ میں الجزائر کے ایک مشہور عالم سیدی محمد بن علی السنوسی نے طریقہ سنوسیہ کی ابتدا کی، جس کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح، فرنگی استعمار کی مدافعت اور اسلام کی اشاعت تھا۔ بائیس سال کے عرصے میں انھوں نے ایک ایسی زبردست جماعت تیار کرلی جس کا نظام سلطنتوں کے نظام سے زیادہ مکمل تھا۔ جس کا ہر شخص جماعتی مقصد کی لگن میں ڈوبا ہوا تھا اور جس کے ہر رکن کو خالص اسلامی تربیت دے کر سچا مسلمان بنا دیا گیا تھا۔ اس میں قرآن مجید کے لفظ لفظ پر عمل کرنا پہلی شرط ہے۔ اولیا کی پرستش، مزارات کی زیارت، کافی اور تمباکو کا استعمال، یہودیوں اور عیسائیوں سے تعلقات سب ممنوع ہیں اور ہر شخص ایک بچے مجاہد کی کی زندگی بسر کرتا ہے۔ مصر سے لے کر مراکش تک اور ساحل طرابس سے لے کر صحرائے افریقہ کے آخری کونوں تک اس کی خانقاہیں قائم ہیں اور افریقہ کے علاوہ عرب عراق اور جزائر ملایا تک اس کا اثر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تبلیغی کوششوں نے افریقہ کے ان تمام قبائل کو صحیح معنوں میں مسلمان بنا دیا ہے جو صرف برائے نام مسلمان رہ گئے تھے اور گالا، ٹہسٹی اور بور کو کے علاقوں تک اسلام کی ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ قادریہ سلسلے کے لوگوں کی طرح ان کے ہاں بھی صرف وعظ و تلقین نہیں ہے بلکہ یہ مسلمان بنانے کے بعد نو مسلموں کو عملی تربیت دیتے ہیں تاکہ وہ خود اپنے ہم جنسوں کو اسلام کی طرف راغب کر سکیں اور دعوت الی الخیر کا کام بخوبی انجام دے سکیں۔ دعوت عمل یہ داستان سرائی محض اس لیے نہیں کہ اس سے کچھ افسانہ ہائے پارینہ کو چھیڑنا مقصود ہے۔ بلکہ اس سے دراصل ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ اسلام کی دینی اور دنیادی قوت کا اصلی سرچشمہ وہی دعوت الی الخیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے جس پر اس کی ساری زندگی کی بنیاد رکھی گئی تھی، اور جس کے لیے مسلم نام کی ایک قوم کو حق جل شانہ نے پیدا کیا تھا اور چونکہ پیغام کی فطرت اس بات کو چاہتی ہے کہ اسے مرسل الیہ تک پہنچایا جائے اس لیے تبلیغ خود اسلام کی فطرت میں شامل ہے۔ اس ماموریت کے احساس نے اسلام کی تیرہ سو سالہ زندگی میں جو حیرت انگیز کرشمے دکھائے ہیں ان کا ایک نہایت مختصر سا خاکہ پیش کیا جا چکا ہے۔ افریقہ کے وسیع براعظم میں بغیر کسی جبر و لالچ اور مکر و دغا کے جس طرح کروڑوں آدمی اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے ، چین میں بغیر کسی مادی اور جباری قوت کے جس طرح آبادیوں کی آبادیانی اسلام کی تابع فرمان بن گئیں، جزائر ملایا میں نہتے اور بے زور تاجروں کے ہاتھوں جس طرح ۸۰ فیصد آبادی خدائے واحد کی پرستار بن گئی ، تاتارستان کے مسلم کش اور خونخوار وحشیوں کو ضعیف اور نازک عورتوں اور بے نوا درویشوں نے جس طرح اسلام کے آستانہ رحمت پر لا کر جھکا دیا اس کی بصیرت افروز داستان ہم نے اس احساس کے کرشمے دکھانے کے لیے اپنے برادران ملت کے سامنے پیش کی ہے اور اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان میں بھی کسی طرح یہ احساس جاگ اٹھے۔ محض تبلیغی جماعتیں یا ہمہ گیر ذوق تبلیغ؟ ہم نے جگہ جگہ اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرح مشنری سوسائٹیاں بنا کر کام نہیں کیا۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم تنظیم کے ساتھ کام کرنے کے مخالف ہیں، بلکہ دراصل مراد یہ ہے کہ یہ کام محض ایک جماعت یا چند جماعتوں کا نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے مسلمانوں میں تبلیغ دین کے ایک ایسے عام ذوق کی ضرورت ہے کہ ہر مسلمان اپنے آپ کو اس مقدس کام کے لیے مامور سمجھنے لگے۔ اگر عام مسلمان اس ذوق سے بے بہرہ رہیں اور محض ایک انجمن یا چند انجمنوں پر یہ کام چھوڑ دیا جائے تو ہم کبھی غیر مسلموں کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ ہر جگہ مسلمانوں کا عام ذوق تبلیغ ہی فتح و کامرانی سے سرفراز ہوا ہے۔ اگر افریقہ میں مسلمانوں کا یہ عام ذوق نہ ہوتا اور صرف چند انجمنیں ہی فریضہ تبلیغ کو انجام دینے کے لیے چھوڑ دی جاتیں تو عیسائیوں کی بدرجہا زیادہ طاقتور اور دولت مند سوسائٹیوں کے مقابلے میں انھیں قیامت تک وہ کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی تھی جس پر آج ساری مسیحی دنیا انگشت بدنداں رہ گئی ہے۔ اسی طرح اگر مجمع الجزائر ملایا میں عام تاجروں اور سیاحوں کا جذبہ خدمت دینی کام نہ کرتا اور صرف وہ چند عربی اور ہندی واعظین اور علما ہی دعوت اسلام کا فرض انجام دیتے جو وقتا فوقتا وہاں پہنچتے رہے تھے تو شاید آج بحر الکاہل کے ساحلوں پر اذان کی وہ گونج اس کثرت سے سنائی نہ دیتی جو آج بت پرستی اور مسیحی استعمار کی متحدہ مزاحمت کے باوجود سنائی دے رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت اسلام ایک فرض کفایہ ہے جس کے لیے کسی ایک جماعت کا کھڑا ہونا تمام امت کے لیے کفایت کرتا ہے لیکن شریعت کی یہ رخصت محض مسلمانوں کی آسانی کے لیے ہے۔ اس رخصت کا مطلب اگر کچھ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ یہ فرض عائد تو تمام مسلمانوں پر ہوتا ہے، جسے سب کو ادا کرنا چاہیے ، لیکن کم از کم ایک جماعت تو ایسی ضرور رہنی چاہیے جو ہمیشہ بالالتزام اسے ادا کرتی رہے اور وہ جماعت یقیناً علما و صلحائے امت کی جماعت ہے۔ حرف آخر ضرورت ہے کہ ہمارے علما اور سجادہ نشین حضرات اپنے حجروں سے نکلیں۔ علما کا فرض تو ظاہر ہے کہ انھیں درجہ خشیت اور انبیائے بنی اسرائیل سے مشابہت جیسی فضیلتیں کچھ مفت ہی نہیں مل گئی ہیں، بلکہ ان پر امت کی اصلاح و ہدایت کا ایک بہت بڑا بار رکھ دیا گیا ہے، جسے اٹھانے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی کرنے پر وہ خدا کی شدید گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ مگر ہم حضرات صوفیائے کرام کو بھی ان کا فرض یاد دلانا چاہتے ہیں۔ جن سجادہ ہائے طریقت پر وہ جلوہ فرما ہیں وہ ارشاد و ہدایت کی مسندیں ہیں۔ ان کی وراثت اپنے ساتھ چند فضیلتیں اور دنیاوی فوائد ہی نہیں رکھتی، بلکہ وہ بہت سی ذمہ داریاں اور بہت سی مسئولیتیں بھی رکھتی ہے ، جن کے احساس نے قدمائے متصوفین کو اسلام کی خدمت کے سوا اور کسی مطلب ہی کا نہ رکھا تھا۔ آج اگر یہ حضرات ان ذمہ داریوں کو محسوس کر لیں جو ایک مسلمان سے بیعت لینے کے بعد اس کی اصلاح و تزکیہ نفس کے لیے ان پر عائد ہوتی ہیں تو مسلمانوں کے سیکڑوں مصائب کا علاج ہو سکتا ہے۔ بڑے بڑے سجادہ نشینوں اور پیران طریقت کا حلقہ ارادت کم از کم کروڑ ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور اس میں ان کو ایسا زبردست اثر حاصل ہے کہ وہ اپنے ایک اشارے سے ان کی زندگیوں کا نظام بدل سکتے ہیں۔ ایسی کثیر جماعت میں اسلامی خدمت کا جوش پیدا کر دیتا یہ معنی رکھتا ہے کہ چند ہی سال میں اس سرزمین کا نقشہ بدل جائے۔ تو کیا ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ یہ حضرات اپنے کاشانہ امن و عافیت سے نکل کر اس نازک وقت میں کچھ خدا اور اس کے دین حق کے لیے بھی دوڑ دھوپ کریں گے؟
0 Comments
Your comment will be posted after it is approved.
Leave a Reply. |
AuthorWrite something about yourself. No need to be fancy, just an overview. Archives
January 2025
Categories
All
|
Contact usAlcock St, Maddington, WA, 6109
|
MAIN BOOKSHELVES |
|