This was written by Imam Tabari who collected information provided to him about various events with chain of narrations. Muhaditheen (Scholars of Hadith) have researched this and have prescribed Sahih, Hasan, weak and fabricated. Also, there were some additions made to this book later on.
IbnKathir (R.A.) mentions about this book as follows: "In these volumes, he [Tabari] reported the various narrations as they were transmitted and by whom. His discussion is a mixed bag of valuable and worthless, sound and unsound information. This is in keeping with the custom of many Hadith scholars who merely report the information they have on a subject and make no distinction between what is sound and what is weak."
Imam at-Tabari also clearly says in the introduction of his book that the narrations found in his book are only as good as the people who narrate them.
علامہ ابن جریر بن یزید طبری بہت بڑے اور بلند مرتبہ کے عالم تھے، خاص کر قرونِ ثلاثہ کی تاریخ کے حوالہ سے ان کا نام اور کتاب کسی تعارف کے محتاج نہیں ،قدیم و جدید تمام موٴرخین نے ان سے استفادہ کیا. ان ساری خصوصیات کے باوجود تاریخ طبری میں جگہ جگہ حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق ایسی بے بنیاد اور جھوٹی روایات مروی ہیں، جن کی کوئی معقول و مناسب توجیہ نہیں کی جاسکتی ہے ،جب کہ عدالتِ صحابہٴ کرام پرموجود قطعی نصوص قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے پیش نظر منصف مزاج اہل علم امام طبری اور خاص کر ان کی تاریخ میں مروی اس طرح کی روایات پر کلام کرنے پہ مجبور ہوئے ہیں، روایات پر کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ تاریخ طبری میں بڑے بڑے دروغ گو ، کذّاب اور متہم بالکذب راویوں کی روایات بھی جگہ جگہ موجود ہیں،
تاریخ طبری کی روایات کا ایک جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹرخالد علال کبیر صاحب نے تاریخ طبری میں موجود ثقہ و غیر ثقہ راویوں کی روایات کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ہے؛ انہوں نے تاریخِ طبری میں اس کے بارہ (۱۲) مرکزی رواة کی روایات کا جائزہ لیااور ان میں سے سات راوی کذّاب یا متہم بالکذب ہیں اور پانچ ثقہ ہیں۔
دروغ گواور متہم بالکذب راویوں کی روایات کا اجمالی خاکہ : محمد بن سائب کلبی کی بارہ (۱۲) روایات، حشام بن محمد کلبی کی پچپن (۵۵) روایات ، محمد بن عمر کی چار سو چالیس (۴۴۰)روایات ، سیف بن عمر تمیمی کی سات سو (۷۰۰)روایات ، ابو مخنف لوط بن یحی ٰ کی چھ سو بارہ (۶۱۲)روایات، ہیثم بن عدی کی سولہ(۱۶) روایات، محمد بن اسحاق بن سیار (یسار)(۲۵) کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ہیں، ان سب کی روایات کا مجموعہ جن کو موٴرخ طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے وہ انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) ہے۔
ثقہ راویوں کی روایات کا اجمالی خاکہ :- زبیر بن بکار کی آٹھ(۸)روایات ، محمد بن سعد کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ، موسی بن عقبہ کی سات(۷)روایات ، خلیفہ بن خیاط کی ایک(۱) روایت ، وھب بن منبہ کی چھیالیس (۴۶)روایات ہیں۔ تاریخ طبری کے ان پانچ ثقہ راویوں کی روایات کا مجموعہ دو سو نو(۲۰۹) ہے۔
گویا تاریخ طبری میں دو سو نو( ۲۰۹)ثقہ روایات کے مقابلہ میں ان سات دروغ گو اور متہم بالکذب راویوں کی انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) روایات ہیں، ان دونوں کے تناسب سے اندازہ لگاجاسکتا ہے کہ تاریخ طبری جیسی قدیم اور مستند سمجھی جانے والی کتاب کا جب یہ حال ہے تو تاریخ کی باقی کتابوں کا کیا حال ہوگا۔( ( تفصیل کے لیے دیکھیے : مدرسة الکذابین فی روایة التاریخ الإسلامي و تدوینیہ، ص:۴۵۔۴۷،دار البلاغ الجزائر)
اگر آپ قرون ثلاثہ کی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیں گے تو تدوین کے اس زمانہ میں جھوٹ کے ظاہر ہونے کے اسباب و اہداف میں تداخل پائیں گے، بسا اوقات ایک ہی واقعہ میں سبب اور ہدف دو نوں پائے جائیں گے، اگر آپ نفس واقعہ کی طرف دیکھیں گے تو آپ کو اس کا سبب نظر آئے گا؛ لیکن اسی واقعہ پر نتیجہ کے اعتبار سے غور کیا جائے تو اس کی ایک غرض بھی سامنے آئے گی۔غرض دروغ گوئی کے بعض ایسے واضح ، جن کی وجہ سے قرون ثلاثہ کے دوران عام طور سے اور تدوین تاریخ کے وقت خاص طور سے دروغ گوئی نے جڑ پکڑ لی تھی۔ چند مزید اسباب پیش خدمت ہیں.
1.مخصوص فکری و مذہبی فرقہ کی تائید و نصرت دروغ گوئی و کذب کے ظاہر ہونے کے اسباب میں ایک سبب صراط مستقیم سے منحرف رہنے والے مخصوص فکری و مذہبی فرقہ کی تائید و نصرت بھی ہے ، علامہ ذھبی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ دروغ گواورکذّاب احمد بن عبداللہ جو یباری فرقہ کرامیہ کی نصرت و دفاع کی خاطر محمد بن کرام کے لیے احادیث گھڑا کرتا تھا اور محمد بن کرام انھیں اپنی کتابوں میں ذکر کرتا تھا۔ .. اس طرح دروغ گو و کذّاب قاضی محمد بن عثمان نصیبی روافض کی تائید و نصرت کی خاطر احادیث گھڑاکرتا تھا، اور ابو جارود بن منذر کوفی مثالبِ صحابہ میں احادیث وضع کیا کرتا تھا، عبدالرحمن بن خراشی شیعی کابھی یہی وطیرہ تھا، اس نے حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کے مزعومہ مثالب میں دو رسالے تحریر کرکے روافض کے ایک بڑے پیشوا کی خدمت میں پیش کیا تو اس نے اسے دو ہزار درھم انعام میں دیے۔ ( میزان الاعتدال :۱/۲۴۵،دار لکتب العلمیہ ، الضعفاء لابن الجوزاي: ۳/۸۴، ۴/۳۶۵،دار لکتب العلمیة، لسان المیزان : ۳/۴۴۴ ) ! غور فرمائیں کہ مذکورہ بالا تینوں افراد کا ہدف و مقصد وضعِ حدیث سے صرف اپنے مخصوص فرقہ کے فکری و اعتقادی افکار کی تائید کے علاوہ کچھ نہیں، یہ لوگ انبیاء کرام کے بعد بالاتفاق خیرالبشر و افضل البشر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف زبان درازی اور دلی کینہ کے اظہار کی غرض سے دروغ گوئی کیا کرتے تھے، روافض نے اہل بیت و حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تین ہزارکے قریب جعلی احادیث وضع کی ہیں۔ ( میزان الاعتدال:۲/۱۷۱)
2. ترغیب و ترہیب دروغ گوئی کے اہداف میں ایک ہدف لوگوں کو دین کی ترغیب دینا اور ان کے دلوں کو نرم کرنا اور اپنے مزعومہ نظریہ کے مطابق لوگوں کو اجر کی امید دلانا اور گناہ سے روکنے کے لیے ترہیب بھی تھا، جیسا کہ بعض جہل گزیدہ نام نہاد صوفیوں نے اس قبیح فعل کا ارتکاب کیا۔
3.مادی و معاشی فوائد کا حصول دروغ گوئی کے مرکزی اہداف و اسباب میں ایک بڑا اور بنیادی سبب جاہل عوام کو اپنی طرف مائل کر کے ان سے مادی و معاشی فوائد حاصل کر کے اپنی خواہشات کو پورا کرنا بھی تھا، یہ طرزِ عمل مخصوص گمراہ فرقوں کے علاوہ قصہ گو اور واعظ قسم کے لو گوں نے بھی اختیار کیا تھا، یہ لوگوں کو جھوٹی روایات ، عجیب و غریب اور محیرالعقول قسم کی باتیں گھڑ کر سنایا کرتے؛ تاکہ لوگ ان سے متأثر ہو کر ان کی مادی و معاشی ضروریات کی تکمیل میں معاونت کریں۔حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے میں لکھا ہے کہ ابراہیم بن فضل اصفہانی (المتوفی ۵۳۰ھ)اصفہان کے بازار میں کھڑے ہو کر اسی وقت اپنی طرف سے احادیث گھڑ کر لوگوں کو سنایا کرتا تھا اور ان روایاتِ کاذبہ کے ساتھ صحیح روایات کی اسانید کو جوڑا کرتا تھا۔ ( لسان المیزان :۱/۱۳،موٴسسة الأعلمي بیروت)
4.شخصی یا گروہی مفادات ایک سبب اپنے شخصی یا گروہی مفاد کے لیے بعض برگزیداور بڑے لوگوں کی مدح یا مذمت میں احادیث وضع کرنا بھی تھا، علامہ ذہبی نے امام مازری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ نعیم بن حماد امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے مثالب میں جھوٹی روایات و ضع کیا کرتا تھا، علامہ ذہبی ہی نے لکھا ہے کہ احمد بن عبداللہ جو یباری نے امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کی مدح میں ایک حدیث وضع کی تھی۔ (میزان الاعتدال :۷/۴ ، میزان الاعتدال :۲۴۵۱) ان تمام اسباب و اہداف میں غور و فکر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کذب و دروغ گوئی کے پھلنے اور پھولنے کی بنیاد تو ان دروغ گوراویوں کے باطنی امراض کے سبب وجود پذیر ہوئی ؛ لیکن سیاسی ، گروہی اور مادی و معاشی عوامل نے اس کی گہرائی و نشاط میں اضافہ کر کے اسے مزید سہ آتشہ بنایا۔
علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر کی رائے :- علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمھما اللہ نے طبری کی توثیق کرنے کے ساتھ ساتھ دبے لفظوں میں ان کے تشیع کی طرف میلان کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:” ثِقَةٌ صَادِقٌ فِیْہ تَشَیُّعٌ یَسِیْرٌ وَ مُوَالَاةٌ لَاتَضُرُّ“․(1 ) شاید ان دونوں حضرات کے کلام کامقصد یہ تھا کہ چوں کہ علامہ طبری نے اپنی تاریخ میں ایسی روایات بغیر نقد و کلام کے نقل کی ہیں،جن سے ان کا تشیع کی طرف میلان معلوم ہوتا ہے ،لہٰذا اس تصریح کے بعد طبری کی وہ تمام روایات جن سے اہلِ تشیع کے مخصوص افکار کی تائید ہوتی ہے وہ غیر معتبر قرار پائیں گی۔
عصر حاضر کے اک محقق مولانا محمد نافع صاحب کا تبصرہ:- تاریخ طبری میں منقول معتضد با للہ عباسی کا رسالہ جسے موٴرخ طبری نے ۲۸۴ھ کے تحت بلا کسی نقد و تحقیق و تمحیص اور کلام کے نقل کیا ہے، جس میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں حضرات کے خلاف سب و شتم اور لعن طعن کرنے کے جواز میں مواد فراہم کیا اور اس میں موجباتِ لعن و طعن درج کیے ہیں،اس رسالہ پر تنقید کرتے ہوئے ”الطبری کی حکمتِ عملی“ کے تحت مولانا محمد نافع نے” فوائدِنافعہ “میں جو کچھ فرمایا وہ من و عن پیش خدمت ہے: ”غور طلب بات یہ ہے کہ صاحب التاریخ محمد ابن جریر الطبری کے لیے عباسیوں کے اس فراہم کردہ غلیظ مواد کو من و عن نقل کے لیے اپنی تصنیف میں شامل کرنے کا کون سا داعیہ تھا؟اور اس نے کون سی مجبوری کی بنا پر یہ کارِ خیرانجام دیا؟ گو یا الطبری نے اس مواد کو اپنی تاریخ میں درج کر کے آنے والے لوگوں کو اس پر آگاہ کیا اور سب وشتم اور لعن طعن کے جو دلائل عباسیوں نے مرتب کروائے تھے، ان پر آئندہ نسلوں کو مطلع کرنے کا ثواب کمایا؟چناں چہ شیعہ اور روافض رسالہٴ مذکورہ میں مندرجہ مواد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی کتب میں ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر مطاعن قائم کرتے ہیں اور شدید اعتراضات پیدا کرتے ہیں۔(2)
مولانا مہرمحمد صاحب کی رائے ابن جریر طبری کا مذہب ،اس عنوان کے تحت مولانا مہرمحمد صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ وہی امام طبری المتوفی ۳۱۰ھ ہیں جنہیں اہلِ بغداد نے تشیع سے متہم کر کے اپنے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا تھا(3)،گو شیعہ نہیں ہیں؛ تاہم اپنی تاریخ یا تفسیر میں ایسی کچی پکی روایات خوب نقل کر دیتے ہیں جو شیعہ کی موضوع یا مشہور کی ہوئی ہوتی ہیں۔ (4 )
عرب علماء کی رائے:- معاصر عرب اہل علم حضرات میں سے ڈاکٹر خالد علال کبیر صاحب (5)نے اپنی کتاب ”مدرسة الکذابین في روایة التاریخ الإسلامي و تدوینہ“ میں موٴرخ طبری کے اس مخصوص طرزِ عمل کے بارے میں لکھا ہے کہ "میرے نزدیک انھوں نے یہ (یعنی تحقیق و تمحیص کے بغیر صرف اسانید کے ساتھ روایات کو نقل کر کے) ایک ناقص کام کیا ہے، اور ان تمام روایات کے وہ خود ذمہ دار ہیں جو انہوں نے اپنی تاریخ میں مدون کی ہیں،پس انہوں نے عمداً دروغ گو راویوں سے بہ کثرت روایات نقل کیں اور ان پر سکوت اختیار کیا، یہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے جو بعد میں آنے والی بہت ساری نسلوں کی گمراہی کا سبب بنا، انھیں (طبری) چاہیے تھا کہ وہ ان دروغ گو رایوں کا بغیر ضرورت کے تذکرہ نہ کرتے، یا ان پر نقد کرتے اور ان کی روایات کی جانچ پڑتال کرتے، صرف ان کی اسانید کے ذکر پر اکتفا کر کے سکوت اختیار نہ کرتے۔ نقدِ روایات اس لیے ضروری تھا کہ تاریخِ طبری کا مطالعہ کرنے والوں میں غالب اکثریت ان لوگوں کی ہے جن میں اتنی علمی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ان روایات پر سند و متن کے اعتبار سے نقد کرسکیں،اگر اس سے استفادہ کرنے والے صرف حدیث، تاریخ و دیگر علوم میں متبحر ہوتے تو یہ طے شدہ بات تھی کہ وہ نقد و تمحیص کا عمل انجام دیتے۔ (6)
ڈاکٹر صاحب موصوف مزید لکھتے ہیں کہ " اس معاملہ کو اس سے بھی زیادہ سنگین اس بات نے کردیا کہ طبری کے بعد آنے والے اکثر موٴرخین نے قرونِ ثلاثہ کے بارے میں ان سے بہ کثرت روایات نقل کی ہیں ، جیسا کہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ”المنتظم“‘ میں، ابن الاثیر نے ”الکامل“ میں اور ابن کثیر نے ”البدایہ“ میں بغیر سند کے نقل کیا ہے، اور ان حضرات کا اس طرح بغیر سند کے روایات نقل کرنے سے ثقہ اور دروغ گو راویوں کی روایات خلط ملط ہوگئیں ہیں، بسا اوقات تاریخ طبری کی طرف مراجعت کے بغیر ان روایات میں تمیز مستحیل ہوجاتی ہے۔(7)
حواشی :- (1) میزان الاعتدال :۳/۴۹۹،لسان المیزان :۵/۱۰۰ (2) فوائدنافعہ:۱/۵۷۔۵۸،دار الکتاب لاہور (3 ) معجم الأدباء :۶/۵۱۴ (4) ہزار سوال کا جواب ،ص:۷۹،مرحبا اکیڈمی (5 ) موصوف نے جامعة الجزائر سے تاریخ اسلامی میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے۔ (6) مدرسة الکذابین في روایة التاریخ الإسلامي و تدوینہ: ۱/۶۷، ۶۸ (7 ) حوالہٴ سابق
!!تحذير المسلمين من القراءة في تاريخ الطبري بدون دراية بما فيه http://www.ahlalhdeeth.com/:منقول من
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله ومن والاه وارض اللهم عن الخلفاء الأربعة أبي بكر وعمر وعثمان وعلي وعن سائر الأصحاب ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين .
وبعد : فقد دفعني لهذا التحذير هو ما رأيته من تخليط شديد في أحد المشاركات التي تمدح الكتاب بدون دراية عنه ؛ حيث زعم المشارك عند تحذيره من طبري آخر للروافض أن كتاب تاريخ الطبري من أفضل كتب التاريخ , مع خلطه بين أبي جعفر الطبري صاحب التفسير والتاريخ وبين أبي القاسم الطبراني صاحب المعاجم الثلاث الشهيرة ! وصدق من قال : من تحدث في غير فنه أتى بالعجائب !!
وخوفاً من اغترار البعض من قراء المنتدى بهذا الكلام فيقبلوا على القراءة في الكتاب بدون دراية بما فيه - وهو الكتاب الذي يدندن به الرافضة وأهل الاستشراق دائما - رأيت أن أقوم بواجبي في التحذير مما في الكتاب من بلايا وطامات .
فأقول وبالله التوفيق :
أولاً : التحذير من القراءة في تاريخ الطبري لأبي جعفر ابن جرير رحمه الله ينبغي أن يكون أشد من التحذير من طبري الرافضة المغمور !
لأن طبري الرافضة المغمور أمره واضح بالنسبة إلينا !
أما " تاريخ الطبري " فهو بين أيدينا وصاحبه إمام محدث فقيه ومؤرخ ومفسر كبير وشهير !
ولذلك قد يغتر البعض بما جاء في كتابه , إلا أنه رحمه الله قد اعتذر عما جاء في كتابه من هذه الأخبار المستشنعة فقال : ( فما يكن في كتابي هذا من خبر ذكرناه عن بعض الماضين مما يستنكره قارئه , أو يستشنعه سامعه , من أجل أنه لم يعرف له وجها من الصحة ولا معنى في الحقيقة ؛ فليعلم أنه لم يُؤْت في ذلك من قبلنا , وإنما أُتِي من قِبَل بعض ناقليه إلينا , وأنا إنما أدينا ذلك على نحو ما أدي إلينا ) تاريخ الطبري المقدمة ( 1 / 8 )
فطريقته هي الجمع والتقميش دون التفتيش إلا في القليل النادر !
بمعنى أنه جمع ولم يحقق الأسانيد لما جمعه !
فمثله في ذلك كمن يجمع التحقيقات في حادثة فيجمع أقوال الشهود ومن كان موجودا بغض النظر عنوعدالتهم وضبطهم وكونهم ثقات أو كذابين أو لهم غرض أو هوى !
ثم تأتي مرحلة التمحيص للأقوال من القضاة بعد ذلك فيكشفون زيغ فلان وكذب فلان وغير ذلك حتى يصلوا للحقيقة !
وهكذا ينبغي أن توضح أسانيد الكتاب تحت التحقيق والبحث وللأسف حتى الآن لم يطبع الكتاب محققا تحقيقا علميا ُيَبين فيه الصحيح من السقيم ! وهذا من تقصير المسلمين !
ثانياً : لقد بلغت روايات أحد المتهمين بالكذب وهو ( أبو مخنف لوط بن يحي ) - وهو أحد الوضاعين الرافضة الكذابين المطعون في عدالتهم - في تاريخ الطبري قرابة ( 600 ) ستمائة رواية استغرقت الفترة من وفاة النبي صلى الله عليه وسلم حتى سنة 132هـ
فتناولت روايات أبي مخنف الخلفاء الأربعة والدولة الأموية وجاء فيها بالطامات والبلايا التي يروج لها الرافضة وأهل الاستشراق !!
يقول شيخ الإسلام : (( وأكثر المنقول من المطاعن الصريحة هو من هذا الباب ( الكذب ) يرويها الكذابون المعروفون بالكذب مثل : أبي مخنف لوط بن يحيى ومثل هشام بن محمد بن السائب الكلبي وأمثالهما من الكذابين ولهذا استشهد هذا الرافضي بما صنفه هشام الكلبي في ذلك وهو من أكذب الناس وهو شيعي يروي عن أبيه وعن أبي مخنف وكلاهما متروك كذاب)) ( منهاج السنة ( 5 / 81 )
ثالثاً : والناظر في الروايات في الطبري يجد فيها الكثير الكثير من روايات هؤلاء الرواة الذين اتهموا بالكذب أمثال :
1-أبو مخنف لوط بن يحي : يعتبره الشيعة من كبار مؤرخيهم ( رجال النجاشي 245 _ رجال الحلي 136 ) وأما درجته عند أهل السنة فقد أجمع نقاد الحديث على تضعيفه بل وعلى تركه . قال أبو حاتم : متروك الحديث . وقال ابن حبان رافضي يشتم الصحابة ويروي الموضوعات عن الثقات وقال السليماني : كان يضع للروافض . وقال ابن عدي : حدث بأخبار من تقدم من السلف الصالحين ولا يبعد منه أن يتناولهم وهو شيعي محترق صاحب أخبارهم . وقال ابن حجر : إخباري تالف لايوثق به .
2- هشام بن محمد بن السائب الكلبي : قال الدراقطني : متروك . وقال ابن عساكر : رافضي ليس بثقة . وقال ابن معين : ليس بشيء كذاب ساقط
3-جابر بن يزيد الجعفي : قال ابن معين : كان كذابا . وقال في موضع آخر : لا يكتب حديثه ولا كرامة . وقال زائدة : أما الجعفي فكان والله كذابا يؤمن بالرجعة . وقال ابن حبان : كان سبئيا من أصحاب عبد الله بن سبأ كان يقول : إن عليا يرجع للدنيا .
فإذا كان هؤلاء الثلاثة على سبيل المثال من رواة مئات الروايات في تاريخ الطبري لا سيما في أحداث الفتنة ترى ماهو الضرر الذي ألحقه القوم بالتاريخ ! تشويه للأحداث .. تحريف للحقائق ..
وفي أيامنا هذه يأتي أعداء الإسلام من الروافض وطوائف المستشرقين ومن على شاكلتهم من الملاحدة لينقلوا ويبحثوا عن كل حادث ضعيف وموضوع لطرح شبهاتهم !! فيغتر بذلك الكلام من لايعرف فيقع في المحظور !!!!
رابعاً : أول طبعة للكتاب كانت على يد المستشرقين هي طبعة ليدن ( 1879م – 1898م ) ثم أعادو طبعه أيضا ( 1897- 1901م ) وتوالت الطبعات العربية حتى الآن للأسف على هذه الطبعة , وطبعه الرافضة في طهران عن انتشارات جيهان ( 1965م ) ويطبع للآن ببيروت بمؤسسة الأعظمي !
أرأيت مدى حرص المستشرقين والرافضة على التسابق لطبع الكتاب وما هو هدفهم ؟
الهدف أن يقولوا : هذا تاريخ الطبري أحد مراجع السنة يقول بما نريد فسلموا بما ننقله منه !
إنني أحذر من القراءة في تاريخ الطبري دون دراية بدراسة الأسانيد وهو للآن لم يطبع طبعة فيها تحقيق للأسانيد وبيان ما فيها من صحيح وسقيم !
خامساً : من أفضل كتب التاريخ التي ينصح بالقراءة فيها : " تاريخ الإسلام " للذهبي وهو مطبوع في أكثر من خمسين مجلدا وكتاب " البداية والنهاية " لابن كثير وكلاهما يتعرض لنقد الأحداث .
وأما تاريخ الطبري فأحيل إخواني لبيان بعض طامات الكتاب على المصدرين التاليين فهما في غاية الأهمية :
1- مرويات أبي مخنف في تاريخ الطبري – عصر الخلافة اراشدة دراسة نقدية _ تأليف يحيى بن إبرالهيم بن علي اليحيى ط . دار العاصمة يقع في 524 صفحة .
2- تحقيق مواقف الصحابة في الفتنة من روايات الإمام الطبري والمحدثين . تأليف د . محمد أمحزون يقع في مجلدين . ط . دار طيبة
أسأل الله أن يهدينا للحق إنه سميع مجيب . منقول
==============================
قال أبو معاوية البيروتي : هكذا وجدتُ هذا المقال منقولاً في أحد المنتديات من دون ذكر اسم كاتب المقال، فأحببت نقله إلى الملتقى لقراءة تعليقات الإخوة على المقال، فأفيدونا جزاكم الله خيراً .